واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت شیخ ابو علی رودباری

 

رحمتہ اللہ علیہ

 

آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کا اسم گرامی احمد بن محمد بن قاسم بن منصوب ردوباری ہے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے آباؤ اجداد کا سلسلہ نوشیرواں عادل تک جاپہنچتا ہے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کا زیادہ وقت مصر میں گزرا لیکن آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کا اصلی وطن بغداد تھا۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   حضرت جنید بغدادی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے خلیفہ ہیں اس کے علاوہ حضرت ممشاد دینوری  رحمتہ  اللہ  علیہ   اور حضرت ابوالحسن  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے بھی فیض صحبت حاصل کیا۔

ایک بار حضرت جنید بغدادی  رحمتہ  اللہ  علیہ   بغداد کی جامع مسجد میں وعظ کررہے تھے اور ایک شخص سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے اسمع یا شیخ ابوعلی۔ اس وقت آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   بھی مسجد کے سامنے سے گزررہے تھے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے سمجھا کہ شیخ مجھ سے مخاطب ہیں لہذا وہیں کھڑے ہوگئے اور حضرت جنید بغدادی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی باتیں سننے لگے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے وعظ کا دل پر اتنا اثر ہوا کہ دل دنیا سے اچاٹ ہوگیا۔ جو کچھ پاس تھا وہ اللہ کی راہ میں قربان کردیا اور حضرت جنید بغدادی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر حضرت جنید بغدادی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی توجہ سے ظاہری اور باطنی علوم میں کمال حاصل کیا۔

آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فرمایا جس طرح انبیاء کرام کو اظہار معجزات کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح اولیاکرام پر کرامات کی پوشیدگی کی بھی فرض کی گئی ہے اور  ان کے مراتب سے کسی کو بھی باخبر نہیں کیا جاتا۔ راہ توحید پر گامزن ہونے والے جہنم سے نجات حاصل کرلیتے ہیں اور قلب کو بھی حکمت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی دنیا اور دولت سے متنفر ہوجاتا ہے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرماتے ہیں کہ میں سماع سے اس لئے چھٹکارا چاہتا ہوں کہ اس میں کثیرآفات مضمر ہیں اور ہمیشہ تین چیزیں ہی مصیبت میں مبتلا کرتی ہیں اول طبیعت کی بیماری، دوئم ایک ہی عادت پر قائم رکھنا سوم بری صحبت۔

۱۔طبیعت کی بیماری کا مفہوم یہ ہے کہ حرام اور مشتبہ اشیاء استعمال کرے۔

۲۔عادت کا مرض یہ ہے کہ میری طرف نظر رکھتے ہوئے غیبت کرے اور سنے۔

۳۔صحبت کی بیمار یہ ہے کہ برے لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔

حضرت ابوعلی احمد رودباری  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرماتے ہیں کہ ایک درویش کی تدفین کے وقت میں نے یہ قصد کیا کہ اس کی پیشانی پر مٹی مل دوں اور جیسے ہی اس مقصد کے لئے میں نیچے جھکا تو اس نے آنکھین کھول لیں اور کہا کہ اے ابو علی  رحمتہ  اللہ  علیہ   جس نے مجھے عزت فرمائی تم اسی کے سامنے مجھے ذلیل کرنا چاہتے ہو۔ لیکن آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ  نے اپنے عزم پر قائم رہتے ہوئے سوال کیا کہ فقرا پرنے کے بعد بھی زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس نے جواب دیا بلا شبہ زندہ ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ کے دوستوں کو کبھی موت نہیں آتی۔

جب آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   پر وقت نزاع تھا تو آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے اپنا سر اپنی ہمشیرہ کی گود میں رکھ کر آنکھیں کھولتے ہوئے فرمایا کہ آسمان کے دریچے کھل چکے ہیں اور ملائکہ بہشت کو سجا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تجھے ایسی جگہ پہنچادیں گہ جو تیرے وہم و گمان سے بھی باہر ہے۔لیکن میرا قلب یہ صدا لگا رہا ہے اس کے بعد آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے قرآن پاک کی آیت پڑھی جس کے معنی یہ ہیں کہ" تجھے تیرے حق کی قسم ہے کہ غیر کی جانب نہ دیکھنا"آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فرمایا میں نے اپنی حیات کا بڑا حصہ اس انتظار میں گزارا ہے اور اس وقت بھی اس کے سوا کچھ نہ طلب کروں گا اور جنت کی رشوت پر ہرگز راضی نہ ہوں گا۔ یہ کہہ کر آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

حضرت شیخ ابوعلی رودباری  رحمتہ  اللہ  علیہ   ۳۳۲ہجری کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی آخری آرام گاہ مصر میں ہے۔